یہودیوں کاقبلہ؟

قرآن اگرچہ مسلمانوں کے لئے ہدایت کی کتاب ہے لیکن یہ اسی الله کی طرف سے ہے جس نے پہلے دیگر قوموں کی طرف ہدایت بھیجی لہٰذا اس میں ان قوموں کے بارے میں معلومات بھی ہے.اگرچہ ان کے واقعات مختصر بیان کیے گئے ہیں لیکن وہ انکی شریعت میں داخل کی گئیں غلطیوں کی نشاندھی کرنے کے لئے کافی ہیں؟ قرآن میں جس قوم کاذکر سب سے زیادہ ہے وہ بنی اسرائیل ہیں. اس میں الله نے ان کے بہت سے واقعات بیان کیے ہیں جن کے ذریعہ ان کے غلط عقائد کی نشاندھی اوران کی تصحیح کی گئی ہے. اگرچہ یہودیوں کےبہت سے غلط عقیدے معلوم ہیں لیکن چند ایک ایسے بھی ہیں جن کی طرف دیہان نہیں کیا گیا.

بنی اسرائیل کی قوم نے ہجرت پہلے کی اور پھر انکو شریعت دی گئی. اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لوگ جب مصر میں تھے تو وہ مواحد ہی تھے. تو جب یہ لوگ مصر سےنکالے جا رہے تھے تو قرآن بتاتا ہے کہ الله نے ان کو اپنے گھروں میں سےکسی گھر کو قبلہ بنانے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کاحکم دیا.
وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّءَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًۭا وَٱجْعَلُوا۟ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةًۭ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ (سوره یونس، ٨٧)

اس لئے ان کے ہاں مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کارواج ہے اور کچھ فرقےآج بھی نماز اسی طرح پڑھتے ہیں. کچھ کنیسہ جن کے اثار قدیمہ ملے ہیں ان کارخ مختلف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسوی شریعت میں کوئی مخصوص قبلہ نہیں تھا.

قرآن اور بنی اسرائیل کی تاریخ بتاتی ہے کہ بیت القدس کی تعمیر حضرت داؤد(ع) نے شروع کی یہاں پریہ بھی یاد رہےکہ حضرت داؤد(ع) کو دی گئی زبور کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہےاور زبور ایک دعاؤں کی کتاب ہے جس کو یہودی بھی مانتے ہیں. توسوره آل عمران میں جب الله نے یہودیوں کے اس سوال کا جواب دیا کہ پھر ان کو کس نے اس قبلہ سے موڑا جس پر حضرت ابرہیم (ع) تھے تو الله نے بکہ کا ذکر کیا
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍۢ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًۭا وَهُدًۭى لِّلْعَـٰلَمِينَ (سوره آل عمران، ٩٦)
بے شک سب سے پہلی عبادت گا ہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکّہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ بکہ کالفظ کیوں استعمال کیا گیا اور اس سے کیا مراد ہے اسکو جاننے کے لئے تاریخ جاننا بھی ضروری ہے. طالوت نے جب جالوت کو ہرا دیا اور اس جنگ میں حضرت داؤد(ع) نے جالوت کو قتل کر دیا تو جہاں حضرت داؤد(ع) کے بہت سے مداح تھے وہاں ان سے حسد کرنے والے بھی بہت سے آگئے. طالوت حضرت داؤد(ع) کو اگلا بادشاہ بنانا چاہتا تھا لیکن اس کی فوج کے بہت سے جرنیل اس پر راضی نہیں تھےاور اس میں حضرت داؤد(ع) کی زندگی کو بھی خطرہ تھا جس کی بنیاد پر وہ چھپ کر بھاگ گئے اور مکہ آئے جہاں پر انھوں نے دعائیں کیں اور اس جگہ کی بےحد تعریفیں کیں.

اور اسی بکہ کا ذکر زبور میں ہے جس کو قرآن نے پھر سوره ال عمران میں بیان کیا ہے. جس میں ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہےکہ حضرت داؤد (ع) کی بھی خواہش تھی کہ بنی اسرائیل کے لیے بھی مکہ کو قبلہ قرار دیا جائے. حضرت داؤد(ع) کو بالاخر بادشاہت جب مل گئی تو انھوں نے پھر مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی. جس کی تکمیل حضرت سلیمان(ع) کےہاتھوں ہوئی. اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا رخ سیدھا مکہ کی طرف ہے.


ہیکل سلیمانی /مسجد اقصیٰ بنی اسرائیل کا قبلہ اس لئے بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب حضرت سلیمان کے بعد بنی اسرائیل دو گروہوں میں بٹ گیا تب جو ١٠ قبیلے علیحدہ ہوئے انھوں نے ہیکل سلیمانی کو اپنا نہیں کہا بلکہ انھوں نےکوہ گرزیم پراپنی عبادت گاہ بنالی جس کارخ بھی ہیکل سلیمانی کی طرف نہیں تھا. اگر ہیکل سلیمانی /مسجد اقصیٰ کو بنی اسرائیل اپنا قبلہ سمجھ رہے ہوتے تو پھر یقیناً جب ١٠ قبیلوں نے اپنی علیحدہ ریاست بنائی تھی تو وہ کم از کم اپنی عبادت گاہوں کا رخ ہیکل سلیمانی کی طرف رکھتے. لیکن ایسا نہیں دیکھا گیا. لہٰذا یہودی جو فساد مچا رہے وہ ایک غلط چیز اور غلط عقیدے پر ہے.


إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍۢ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًۭا وَهُدًۭى لِّلْعَـٰلَمِينَ (سوره آل عمران، ٩٦)
یہاں پریہ بھی یادرہےکہ جب الله نےیہودیوں کی توجہ کو بکہ یعنی حضرت داؤد(ع)کی کتاب کی طرف مبذول کرائی تواس آیت میں بکہ کوتمام جہانوں کےلئےہدایت قراردیا ہے. یعنی یہ قبلہ تمام جہانوں کےلئےہے. تویہودیوں نےاپنی طرف سےجو ایک علیحدہ قبلہ بنا لیا ہے اس کی کوئی سند الله کی طرف سے نہیں ملتی