Are Jews Semitic (According to Quran)?

The conditions arising after the Gaza war have divided people into two groups: one that says stop the atrocities against Muslims in Gaza, and the other that says those making such statements are anti-Semitic or Jew-haters.

The Jews are a community extensively mentioned in the Quran. The Quran states that Allah had given the responsibility of calling people towards Him before Muslims to the Children of Israel. After mentioning the virtues given to the Children of Israel, the Quran also extensively discusses their disobedience and indulgence in mischief. One major fault of the Jews is their excessive racial pride and superiority complex, making them consider others inferior. This led them to restrict a universal religion to a racial one and limit Allah, the God of all worlds, to the Lord of the Children of Israel. Their desire to show themselves superior has surrounded their entire lives. Therefore, they incorporated famous events and personalities from before Prophet Moses (peace be upon him) into their lives, such as the well-known incident of Prophet Abraham’s sacrifice of his son, Prophet Isaac (peace be upon him).

Another example is Prophet Noah (peace be upon him). In Judaism, Prophet Noah is considered a faithful prophet and a mercy for humanity, who, like Prophet Abraham, brought his people to the oneness of God (monotheism) and invited them to the mercy and forgiveness of Allah. Moreover, Prophet Noah is also regarded as the founder of universal ethical principles, and these principles apply to almost all people according to Jews; these principles include avoiding idolatry, avoiding murder, theft, and other fundamental moral principles. Seeing the high status of Prophet Noah(AS) in the Bible, the Jews included him in their ancestry.

The Jews also consider Prophet Noah as the second Adam, meaning that, according to the Jews, all people from this era are ultimately the descendants of Prophet Noah. So, how could the Jews consider themselves the best and superior? To address this, they added another story to it, narrating that Prophet Noah had three sons: Shem, Ham, and Japheth. According to Jewish traditions, Prophet Noah built the ark under Allah’s guidance, and he, along with his sons and their wives, boarded the ark and survived the flood. Shem, who was the best and unique son, was chosen as their leader. Ham was shown as the heir of the African people, depicted as extremely evil and alcoholic. Because the Jews have enmity with the Egyptians and other neighboring nations, they portray Jews as the offspring of a righteous person (Shem) and others as descendants of a bad person (Ham). The third son, Japheth, was presented as the leader of the Australian (Southeast Asian) people.

Through this self-made division, the Jews have portrayed themselves as the best and superior, spreading injustice and corruption in the world.

But does the Quran confirm this?

The Quran presents Prophet Noah as a highly esteemed messenger who successfully carried out the task of inviting people to monotheism even in extremely difficult and challenging circumstances. However, addressing the Jews directly, the Quran clearly states that they are not the descendants of Prophet Noah. In Surah Al-Isra (17:3), Allah says, ‘You are those people who We had carried in the Ark with Noah. Indeed, he was a grateful servant.’

. وَءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَ۔ٰبَ وَجَعَلْنَ۔ٰهُ هُدًۭى لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا۟ مِن دُونِى وَكِيلًۭا ٢ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَبْدًۭا شَكُورًۭا ٣


It means that the Children of Israel (Jews) are not descendants of Prophet Noah but are descendants of a person who boarded the ark with Prophet Noah (peace be upon him). Therefore, Jews calling themselves the family of Noah or the Semitic race is completely false, deceptive, and a deviation from the truth.

Similarly, in Surah Aal-e-Imran, Allah mentions two prophets and two lines of prophethood and then says that some are the offspring of others, meaning they are not all from the same lineage. So, it has to be considered who the descendants of which prophet are.

 إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰٓ ءَادَمَ وَنُوحًۭا وَءَالَ إِبْرَٰهِيمَ وَءَالَ عِمْرَٰنَ عَلَى ٱلْعَ۔ٰلَمِينَ ٣٣ ذُرِّيَّةًۢ بَعْضُهَا مِنۢ بَعْضٍۢ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

Looking at Surah Al-Isra in this context makes it clear that the family of Abraham are the offspring of Prophet Adam, and the family of Imran are the descendants of Prophet Noah. The family of Imran includes Prophet Jesus (peace be upon him), against whom the Jews attempted to crucify, but Allah negated their claim, declaring that he was not the offspring of Prophet Noah. Allah also stated that even if Prophet Noah’s real descendants did not follow guidance, Prophet Noah could not intercede for them. Thus, merely showing a son as good does not make one good; following Allah’s commandments is the guarantee of proximity to Allah and success. Therefore, the Jews calling themselves the Semitic race is a deception that the Quran explicitly refutes, and representing all the world’s people as descendants of Prophet Noah contradicts reality.

Moreover, the Qur’an and history also tells that it was the Jews who tried to crucify Jesus (AS), that is, the Jews who tried to kill Jesus (AS), who is actually from the tribe of Noah , so in a way the Jews are the true Anti-Semitic. and the Jews of today are just prove that they still are the epitome of antisemitic attitudes.

Allah has described the Quran as a criterion, breaking propaganda in its real sense. As Muslims, we can connect with it not only to earn respect in this world but also to dismantle the propaganda of others. May Allah grant us the ability to understand and adopt the Quran and make it a guiding light for ourselves. Amen.”

کیا یہودی سامی النسل ہیں؟

غزہ جنگ کے بعد بننے والے حالات نے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے، ایک وہ جو کہتے ہیں کہ غزہ کے مسلمانوں پر مظالم بند کرو اور دوسرے وہ جو کہتے ہیں کہ جو ایسا کہہ رہے ہیں وہ یہودی دشمن یا انٹی سمیٹک ہیں.

یہودی وہ قوم ہے جس کا قرآن میں سب سے زیادہ تذکرہ ہے اور قرآن بتاتا ہے کہ مسلمانوں سے پہلے الله کی طرف بلانے کی دعوت کی ذمہ داری الله نے بنی اسرائیل کو دی تھی. بنی اسرائیل کو دی جانے والی فضیلتوں کے بعد، قرآن میں ان کی نافرمانیوں اور فتنہ پردازیوں کا بھی ذکر کثرت سے ہے. یہودیوں کی برائیوں میں ایک بڑی برائی ان کے اندر حد سے زیادہ نسلی تفاخر اور فضیلت کی برائی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر دوسرے کو اپنےسےحقیر اور کمتر جانتے ہیں. یہ ایک بنیادی وجہ تھی جس کی وجہ سے انھوں نے ایک عالمی دین کو نسلی دین اور تمام عالموں کے الله کو بنی اسرائیل کےرب تک محدود کردیا. اپنے آپ کو برتر دکھانے کی خواہش ان کی پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اسی لئے انھوں نے حضرت موسیٰ(ع) سے قبل کے مشہور واقعات اور شخصیات کو بھی اپنے ساتھ جوڑ لیا، جس کی واضح مثال حضرت ابراہیم کا اپنے بیٹے کی قربانی کی ہے جو یہودی حضرت اسحاق(ع) کو قرار دیتے ہیں

اس کی دوسری مثال حضرت نوح(ع) کی ہے. یہودیت میں حضرت نوح علیہ السلام کو ایک مؤمن نبی اور انسانیت کے لئے اللہ کی رحمت ہونے کا تصور کیا جاتا ہے جو اپنی قوم کو ابراہیم علیہ السلام کی طرح توحید (توحیدِ الہی) پر لے کر لے آئے اور اُن کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی دعوت دی. اس کے علاوہ حضرت نوح(ع) کوعالمی رہنما اصولوں کا بانی بھی مانا جاتا ہے اور یہ اصول یہودیوں کے نزدیک تمام لوگوں پرلاگو ہوتے ہیں جن میں شرک سے بچنا، قتل خطا، چوری اور دیگر بنیادی اخلاقی باتیں شامل ہیں. بائبل میں حضرت نوح(ع) کےاعلیٰ مقام کو دیکھتے ہوئے یہودیوں نے حضرت نوح(ع) کو اپنے آباؤاجداد میں شامل کرلیا.

یہودی حضرت نوح(ع) کو آدم ثانی بھی مانتے ہیں جسکا مطلب یہ ہوا کہ یہودیوں کے نزدیک اس دور کے تمام لوگ بالاخر حضرت نوح(ع) کی اولاد ہی ہیں تو پھر یہودی اپنے آپ کو افضل اور برتر کیسے دکھا سکتے تھے؟ اس کے لئے انھوں نے اس کے ساتھ ایک اور کہانی گھڑی کے حضرت نوح(ع) کے تین بیٹے تھے، سام، حام، اور یافت۔ یہودی روایات کے مطابق حضرت نوح (ع) اللہ کی ہدایت پر جہاز بناتے ہیں اور وہ اور ان کے بیٹے اور اپنی بیویوں کے ساتھ جہاز میں چڑھتے ہیں اور طوفان سے بچ جاتے ہیں۔ جو سب سے اچھا اورنیک بیٹا تھا وہ سام تھا جس سے تمام یہودی ہیں اور اس کو امامت ملی. حام کو افریقہ لوگوں کی نسل کا وارث دکھایا جو انتہائی بدکردار اور شرابی ہوتا ہے. کیونکہ یہودیوں کی مصریوں اوردیگر ہمسایہ قوموں سےدشمنی رہی ہے تو اس نفرت کے اظہار کے لئے یہودیوں کو برے شخص کی اولاد دکھاتے ہیں. اور تیسرے بیٹے یافت کو آسٹریلیشیا (جنوب مشرقی علاقہ) کے لوگوں کا سردار دکھایا گیا ہے.
اور اس خودساختہ تقسیم کے ذریعہ، یہودی اپنے آپ کو سب سے افضل اور برتر دکھا کر دنیا میں ظلم و ستم و فساد کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں.

لیکن کیا قرآن اس بات کی تائید کرتا ہے؟
قرآن حضرت نوح(ع) کو ایک اعلیٰ مرتبت رسول کے طور پر پیش کرتا ہے جنھوں نے انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں بھی اپنی بستی میں دعوت دین کا کام انتہائی جانفشانی سے سرانجام دیا لیکن ساتھ ہی یہودیوں کو مخاطب ہو کر صاف طور پر بتا دیا کہ تم لوگ حضرت نوح(ع) کی اولاد سے نہیں. سوره الاسراء کی آیت ٣ میں الله نے فرمایا کہ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ ایک شکر گزار بندہ تھا. وَءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَ۔ٰبَ وَجَعَلْنَ۔ٰهُ هُدًۭى لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا۟ مِن دُونِى وَكِيلًۭا ٢ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَبْدًۭا شَكُورًۭا ٣
یعنی بنی اسرائیل (یہودی) ایک ایسے شخص کی اولاد ہیں جو حضرت نوح (ع) کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا تھا. لہٰذا یہودیوں کا اپنے آپ کو آل نوح یا سامی النسل کہلانا بالکل باطل، جھوٹ اور حقیقت سے انحراف ہے.

اسی طرح سوره ال عمران میں الله نےدو نبیوں اوردو نبوت کے خاندانوں کا ذکرفرمایا. اورپھرفرمایا کہ بعض بعض کی اولاد ہیں یعنی سب ایک کی اولاد نہیں. ۞ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰٓ ءَادَمَ وَنُوحًۭا وَءَالَ إِبْرَٰهِيمَ وَءَالَ عِمْرَٰنَ عَلَى ٱلْعَ۔ٰلَمِينَ ٣٣ ذُرِّيَّةًۢ بَعْضُهَا مِنۢ بَعْضٍۢ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ٣٤ تو پھرسوچنا پڑے گا کہ کون ساخاندان کس نبی کی اولاد ہے؟ پھرسوره الاسراء کی آیت کے تناظر میں اس کو دیکھیں گےتوواضح ہوگا کہ آل ابراہیم حضرت آدم کی اولاد سے ہیں اور آل عمران حضرت نوح(ع) کی اولاد سے ہیں. آل عمران سے حضرت عیسیٰ (ع) مراد ہیں جن کو یہودیوں نے صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی ایک طرف توالله نےیہودیوں کےاس دعوی کی نفی کی کہ وہ حضرت نوح(ع) کی اولاد سے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی بتا دیا کہ ان کا اپنا بیٹا سیلاب کی نظرہوگیا یعنی اگرحضرت نوح(ع) کی حقیقی اولاد بھی ہدایت پر نہیں چلے گی توحضرت نوح(ع) بھی اسکوبچا نہیں سکتے لہٰذا ایک بیٹے کواچھا دکھا کر اپنے آپ کو اچھا سمجھنا کافی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں الله کے احکامات پر چلنا ہی الله کے قرب اور کامیابی کی ضمانت ہے. لہٰذا یہودیوں کا اپنے آپ کو سامی النسل کہنا ایک دھوکہ ہے جس کی قرآن واضح تردید کر رہا ہے اور تمام دنیا کے لوگوں کو حضرت نوح (ع) کی اولاد سے ظاہر کرنا بھی حقیقت کے برخلاف ہے.

قرآن اور تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ٢٠٠٠ سال پہلے بھی یہودی آل نوح کے نبی حضرت عیسیٰ (ع) کو صلیب پر چڑھانے کی کوشش کر رہے تھے اور آل نوح کے دشمن اور انٹی سمیٹک تھے اور آج کے یہودیوں کے رویے بھی اسی دشمنی اور نفرت کا مظہر ہیں. اور چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے کی مثال یہ ہے کہ یہودی دوسروں کو انٹی سمیٹک ہونے کا طعنہ دیتے ہیں 

قرآن کو الله نے فرقان بتایا ہے جو کہ حقیقی معنوں میں پروپیگنڈا کا توڑ ہے لیکن ہم مسلمان اس سے جڑ کر نہ صرف دنیا میں عزت کما سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے پروپیگنڈا کا بھرپور توڑ بھی کر سکتے ہیں. الله ہم کو قرآن کو سمجھنے اور اس کو اپنانے اور اپنے لیے مشعل راہ بنانے کی توفیق دے. امین

یہودیوں کاقبلہ؟

قرآن اگرچہ مسلمانوں کے لئے ہدایت کی کتاب ہے لیکن یہ اسی الله کی طرف سے ہے جس نے پہلے دیگر قوموں کی طرف ہدایت بھیجی لہٰذا اس میں ان قوموں کے بارے میں معلومات بھی ہے.اگرچہ ان کے واقعات مختصر بیان کیے گئے ہیں لیکن وہ انکی شریعت میں داخل کی گئیں غلطیوں کی نشاندھی کرنے کے لئے کافی ہیں؟ قرآن میں جس قوم کاذکر سب سے زیادہ ہے وہ بنی اسرائیل ہیں. اس میں الله نے ان کے بہت سے واقعات بیان کیے ہیں جن کے ذریعہ ان کے غلط عقائد کی نشاندھی اوران کی تصحیح کی گئی ہے. اگرچہ یہودیوں کےبہت سے غلط عقیدے معلوم ہیں لیکن چند ایک ایسے بھی ہیں جن کی طرف دیہان نہیں کیا گیا.

بنی اسرائیل کی قوم نے ہجرت پہلے کی اور پھر انکو شریعت دی گئی. اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لوگ جب مصر میں تھے تو وہ مواحد ہی تھے. تو جب یہ لوگ مصر سےنکالے جا رہے تھے تو قرآن بتاتا ہے کہ الله نے ان کو اپنے گھروں میں سےکسی گھر کو قبلہ بنانے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کاحکم دیا.
وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّءَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًۭا وَٱجْعَلُوا۟ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةًۭ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ (سوره یونس، ٨٧)

اس لئے ان کے ہاں مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کارواج ہے اور کچھ فرقےآج بھی نماز اسی طرح پڑھتے ہیں. کچھ کنیسہ جن کے اثار قدیمہ ملے ہیں ان کارخ مختلف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسوی شریعت میں کوئی مخصوص قبلہ نہیں تھا.

قرآن اور بنی اسرائیل کی تاریخ بتاتی ہے کہ بیت القدس کی تعمیر حضرت داؤد(ع) نے شروع کی یہاں پریہ بھی یاد رہےکہ حضرت داؤد(ع) کو دی گئی زبور کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہےاور زبور ایک دعاؤں کی کتاب ہے جس کو یہودی بھی مانتے ہیں. توسوره آل عمران میں جب الله نے یہودیوں کے اس سوال کا جواب دیا کہ پھر ان کو کس نے اس قبلہ سے موڑا جس پر حضرت ابرہیم (ع) تھے تو الله نے بکہ کا ذکر کیا
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍۢ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًۭا وَهُدًۭى لِّلْعَـٰلَمِينَ (سوره آل عمران، ٩٦)
بے شک سب سے پہلی عبادت گا ہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکّہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ بکہ کالفظ کیوں استعمال کیا گیا اور اس سے کیا مراد ہے اسکو جاننے کے لئے تاریخ جاننا بھی ضروری ہے. طالوت نے جب جالوت کو ہرا دیا اور اس جنگ میں حضرت داؤد(ع) نے جالوت کو قتل کر دیا تو جہاں حضرت داؤد(ع) کے بہت سے مداح تھے وہاں ان سے حسد کرنے والے بھی بہت سے آگئے. طالوت حضرت داؤد(ع) کو اگلا بادشاہ بنانا چاہتا تھا لیکن اس کی فوج کے بہت سے جرنیل اس پر راضی نہیں تھےاور اس میں حضرت داؤد(ع) کی زندگی کو بھی خطرہ تھا جس کی بنیاد پر وہ چھپ کر بھاگ گئے اور مکہ آئے جہاں پر انھوں نے دعائیں کیں اور اس جگہ کی بےحد تعریفیں کیں.

اور اسی بکہ کا ذکر زبور میں ہے جس کو قرآن نے پھر سوره ال عمران میں بیان کیا ہے. جس میں ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہےکہ حضرت داؤد (ع) کی بھی خواہش تھی کہ بنی اسرائیل کے لیے بھی مکہ کو قبلہ قرار دیا جائے. حضرت داؤد(ع) کو بالاخر بادشاہت جب مل گئی تو انھوں نے پھر مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی. جس کی تکمیل حضرت سلیمان(ع) کےہاتھوں ہوئی. اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا رخ سیدھا مکہ کی طرف ہے.


ہیکل سلیمانی /مسجد اقصیٰ بنی اسرائیل کا قبلہ اس لئے بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب حضرت سلیمان کے بعد بنی اسرائیل دو گروہوں میں بٹ گیا تب جو ١٠ قبیلے علیحدہ ہوئے انھوں نے ہیکل سلیمانی کو اپنا نہیں کہا بلکہ انھوں نےکوہ گرزیم پراپنی عبادت گاہ بنالی جس کارخ بھی ہیکل سلیمانی کی طرف نہیں تھا. اگر ہیکل سلیمانی /مسجد اقصیٰ کو بنی اسرائیل اپنا قبلہ سمجھ رہے ہوتے تو پھر یقیناً جب ١٠ قبیلوں نے اپنی علیحدہ ریاست بنائی تھی تو وہ کم از کم اپنی عبادت گاہوں کا رخ ہیکل سلیمانی کی طرف رکھتے. لیکن ایسا نہیں دیکھا گیا. لہٰذا یہودی جو فساد مچا رہے وہ ایک غلط چیز اور غلط عقیدے پر ہے.


إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍۢ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًۭا وَهُدًۭى لِّلْعَـٰلَمِينَ (سوره آل عمران، ٩٦)
یہاں پریہ بھی یادرہےکہ جب الله نےیہودیوں کی توجہ کو بکہ یعنی حضرت داؤد(ع)کی کتاب کی طرف مبذول کرائی تواس آیت میں بکہ کوتمام جہانوں کےلئےہدایت قراردیا ہے. یعنی یہ قبلہ تمام جہانوں کےلئےہے. تویہودیوں نےاپنی طرف سےجو ایک علیحدہ قبلہ بنا لیا ہے اس کی کوئی سند الله کی طرف سے نہیں ملتی

Islamic Revolution of Iran or Sabotage Islam Revolution of 1979

In the late 16th century, the European countries took the torch of progress and advancement from the Spanish Muslims and set out to conquer the world with their latest armaments. This expansion of European nations resulted in the fall of almost all Muslim countries and empires around the world. Thus, once the ruler of the world became the followers. In the start of the 20th century, with the abolishment of Khilafat by Ataturk, hardly a few Muslim countries remained free and independent.

In the mid of the twentieth century, a revolution in the Muslim dominated areas under European control started which resulted in a number of new Muslim countries emerging on the map of the world. Especially after the second world war. This lead to a serious question in the western intellectuals that now as these Muslim countries are getting freedom and they have a very rich history and strong vibrant society, and this new vigor after getting freedom will not take them long to overtake western societies in progress and success to lead the world again. So they pondered how to contain them and keep them subjugated indirectly.

In this serious discussion, a number of solutions were proposed. Some suggested that disputed land be created in these countries, Kashmir like situation were created for many of these countries. Although such issues created by the leaving European empires created some nuisances for the newly formed Islamic countries, nonetheless they did not offer any deterrence to the progress and advancement of these newly freed Muslim countries.

These analysts also pondered over attacking Muslim countries thus creating an economic and social burden on them. But they considered that during first world war when the Khilafat was under threat Muslims across the globe got united to protect it although it was not achieved, it did send a message that without creating internal difference, Muslims will stand united.

So, after going through the history and looking at different options they realized that the most effective way of stopping the progress of Islam has always been using the Shia. Whether it was to halt the spread of Islam in Hazrat Usman (RA) era or it was to stop the spread of Islam during Banu Ummaiyah era, or it was to invite the mongols to destroy the Baghdad, or it was to weaken the Mughal empire through Mir Jaffar and Mir Sadiq, Shias has been most effective and instrumental in stopping Islam from further spreading.

This is because Shiaism is not a religion or sect, it is a movement to stop Islam from within. Even at the time of its creation, its only purpose was to divide and destroy Islam through all means possible. They used fake narrations, they used propaganda, they used false claims and they just repeat lies so many times that people start believing it without realizing that this is a pure lie and its purpose to create an anarchy.

So the experts of the west realized that even now to halt the progress and advancement of Islam they need to implant the seed of Shia in the middle of these newly freed Islamic countries. So an agitation against the Shah of Iran was initiated. This agitation was not for a so-called Islamic Revolution, it was simply against the policies of Shah and it was started by the liberal and leftist part of the society. During the revolution, Khomeini lived in Paris in full protection and with complete support of the west. Common sense tells that no country will be protecting a person who is against them. So how can west supported Khomeini if he had been against the west? They were supporting Khomeini because the west absolutely knew that Khomeini is doing a taqqiya and is infact going to serve them and support their mission of sabotaging Islam. So when the revolution was about to succeed, Khomeini was sent from Paris in a chartered plane to Tehran to hijack the revolution and take the throne and fulfill its commitments with the west.

So immediately after the so-called revolution, the iranian regime started a war with Iraq. Sectarianism was spread in Pakistan. A number of the terrorist organizations were launched in Bahrain, Lebanon, Syria, and other countries and suddenly an Islamic renaissance which was on the card in these newly freed countries, became distant dream and Islam was hijacked by the extremist factions. Instead of progressing on development, research, and prosperity, the resources of these countries were spent on fighting extremism, increasing security, and tackling target killings and sectarian wars.

پاکستانی دماغ جدید ترین سپر کمپیوٹر سے بھی تیز

جاوید چوھدری کے آج کے کالم ٤ مئی کا عنوان ہے یہ طارق فاطمی کے ساتھ زیادتی کا ایک اقتباس دیا گیا ہے

طارق فاطمی صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں، جاگنگ اور واک کرتے ہیں اور ناشتہ کر کے سات بجے دفتر پہنچ جاتے ہیں، یہ اسٹاف کے انے سے پہلے دنیا کے تمام بڑے نیوز پپرز، پاکستان کے تمام اخبارات، نیوز سمریاں، پاکستانی سفارت خانوں کے پیغامات اور گزشتہ دن کی ساری فائلیں پڑھ لیتے ہیں، یہ دفتر کھلے سے پہلے دنیا کے تمام دارالحکومتوں میں اپنے سفیروں سے ٹیلی فون پر بات بھی کر چکے ہوتے ہیں اور یہ دن بھر کی تمام اہم ترین معلومات بھی یاد کر چکے ہوتے ہیں

٧ بجے سے آفس کھلنے تک انسان کے پاس ٢ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتے. اس میں اگر کسی نے امریکی اخبار پڑھا ہو تو اس کو معلوم ہو کہ وہاں کے ایک اخبار کے تمام ادارتی  مضامین پڑھنے کے لئے یہ وقت بہت کم ہے اور دنیا بھر کے تمام اخبارات کا مطالعہ کرنا ان ٢ گھنٹوں میں انسان کے بس کی بات نہیں، پھر اگر پاکستان کے ١٠ اہم اخباروں کو لیا جائے تو ان کا سرسری جائزہ لینے کے لئے بھی ٢ گھنٹے نا کافی ہیں. اس کے بعد نیوز سمریاں بنانا کوئی آسان کام نہیں، مزید یہ کہ اگر پاکستانی سفارت خانے تندہی سے کام کر رہے ہیں تو روزانہ کے تقریباً  ٢٠٠ پیغامات تو انے چاہیے، ہر سفارت خانے سے اوسط ١ پیغام روزانہ کا، ان ٢٠٠ پیغامات کو پڑھنے کے لئے کم از کم ٢٠٠ منٹ چاہیے جو ٣ گھنٹے سے زیادہ بنتے ہیں

پھر پاکستان کے تمام اہم سفارت خانوں کی تعداد اگر ٣٠ بھی لگائی جائے تو ایک سفارت خانے سے بات چیت کے لئے ٥ منٹ بہت قلیل ہیں لیکن ٥ منٹ ٣٠ سفارت خانوں سے بات چیت کے لئے ٢ گھنٹے اور ٣٠ منٹس چاہیے جس میں کال ملانا اٹھانا اور دوسری کال کے درمیان اگر کوئی وقفہ نہ ہو پھر سوچنے کی بات ہے  کہ نئی دہلی اور چین کے سفارت خانے کو چھوڑ کر یورپ، شمالی امریکا اور مشرق وسطیٰ کا کونسا سفارت خانہ آدھی رات کو کھلا ہوتا ہو گا. پاکستان میں ٧ بجے دبئی، ریاض، پیرس، لندن، برلن، ماسکو ہر جگہ صبح کے ٥ سے پہلے کا وقت ہوتا ہے .

اب آپ خود بتائیں اتنا سب کچھ کیا کوئی سادہ سا کمپیوٹر بھی دو گھنٹے میں کر سکتا ہے؟ تو کیا پاکستانی دماغ کمپیوٹر سے بھی زیادہ تیز نہ ہوا؟

اب آتے ہیں اپنے دانشور کہانی باز کی طرف کہ انھوں طارق فاطمی صاحب کی بے گناہی کے کالم کا آغاز کس طرح کیا ہے

میری طارق فاطمی صاحب سے صرف ایک ملاقات ہے، وزیر اعظم نواز شریف ١٨ جنوری ٢٠١٦ کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کے لئے ریاض اور تہران کے دورے پر گئے، میں بھی اس وفد میں شامل تھا، روانگی سے قبل چک لالہ ائیرپورٹ کے لاؤنج میں طارق فاطمی صاحب سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے پوچھا ” کیا وزیر اعظم ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے میں کامیاب ہو جائیں گے” طارق فاطمی مسکرائے اور نرم آواز میں بولے “ہاں ہو سکتا ہے لیکن ٦٣٢ سے آج تک کوئی شخص یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا” میں نے پوچھا “٦٣٢ سے کیوں؟” بولے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٨ جون ٦٣٢ کو انتقال فرمایا تھا، شیعہ اور سنی کی بنیاد اس دن پڑی، یہ دونوں آج تک اکھٹے نہیں ہو سکے، شاید ہم اس تاریخی کارنامے میں کامیاب ہو جائیں” لاؤنج میں تمام لوگ قہقہ لگانے پر مجبور ہو گئے.

طارق فاطمی صاحب شیعہ ہیں اور ہمارے دانشور صاحب نے لکھنے سے پہلے یہ سوچا نہیں کہ طارق صاحب نے سب سے پہلا الزام تو الله پر لگایا کہ نبی اکرم کو اس وقت بلا لیا جب ابھی کام باقی رہتا تھا اور پوری عمارت کے گرنے کا خدشہ تھا

دوسرا الزام طارق فاطمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر لگایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کی صحیح تربیت نہیں کی اور صحابہ یک جان نہیں تھے اور وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دنیا سے رخصت ہوتے ساتھ ہی فتنہ میں پڑ گئے

تیسرا الزام انھوں نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر پر لگا دیا کہ وہ غاصب تھے اور شیعوں کے بقول خلافت کا جو حق حضرت علی کا تھا اس پر قبضہ کر لیا

کلبھوشن یادیو کی سزا اور پاکستان میں ایرانی اور لبرل عناصر کا بین

جیسے ہی ائی ایس پی آر نے کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا کا فیصلہ بتایا ہے تو بھارت میں تو سخت شور اور احتجاج ہو ہی رہا ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان میں موجود ایرانی اور لبرل عناصر نے بھی شور مچانا شروع کر دیا ہے. یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ لوگ کیوں ایک دہشت گردی پھیلانے والے کو سزا سنائے جانے پر اتنا شدید ردعمل دے رہے ہیں. پاکستان میں لبرل عناصر نے تو ہمیشہ دہشت گردوں کو سخت سزا دینے کی حمایت کی ہے جو کہ ٹھیک بات بھی ہے. کیونکہ اسلام خود بھی فتنہ اور دہشت گردی کو سب سے بڑا جرم قرار دیتا ہے اور اس کے لئے ہر سزا ہی کم ہے کیونکہ ایک دہشت گردی کا واقعہ بیشمار گھروں کے سکون کو تباہ کر دیتا ہے اور شہید ہونے والے لوگوں کے والدین کو ایک ناقابل بیان اذیت دے جاتا ہے، ان کی بیویوں اور بچوں کو بیوہ اور یتیم کر دیتا ہے اور ایک نظام کو درہم بھرم کرنے کی کوشش کرتا ہے

تو ایسے میں لبرل اور شیعہ پاکستانیوں کا کلبھوشن کی سزا پر اتنے شور کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ پاکستان سے زیادہ ایران کے وفادار ہیں اور کلبھوشن کے بارے میں ہم نے ان ہی صفحات میں بتایا تھا کہ ایران اس کے ساتھیوں کی رہائی کے لئے آواز اٹھا رہا ہے. اور کلبھوشن کی سزا درحقیقت ایران کی پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت کی ایک واضح مثال ہے. اور شیعہ پاکستان سے زیادہ ایران کے حامی ہیں

آخر میں بس اتنا ہی کہ ان لوگوں کو کس اپنے مسلمان پاکستانیوں کا بھی اتنا ہی خیال ہو

Is Shireen Mazari trying to spread Iranian Influence in Pakistan?

General Raheel Sharif recent appointment has exposed once again that who is spreading sectarianism in Pakistan. Many of Pakistan’s ex military persons have worked or are working as advisor and consultant to various companies and countries, and proving Pakistanis impeccable military brain and capability.

Now this General Raheel Sharif is getting another opportunity to eradicate terrorism, which is not only bringing bad name to Muslims but also protecting Muslim nations from this evil. This is a very honorable job and gives Pakistan a leading role in Muslim nations.

Now there is only person who is vehemently working against and the person is part of a party which has a case of foreign funding from Indian and Jews and still trying to hide behind constitutional nitty gritty instead of providing the details to ECP. So it does not take a genius to understand that who is spreading sectarianism in Pakistan. Below are some of the interesting tweets you can find on this but unfortunately our media is only reporting one side of the story.

Even International Media knows Iran role in spreading terrorism

ایرانی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان میں مشترکہ کاروائیاں

عزیر بلوچ کے تازہ ترین انکشافات کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ ایران اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں مل کر پاکستان میں پاکستان مخالف کاروائیوں میں مصروف ہیں. اور پاکستان میں موجود ایرانیوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک اس بات کو کبھی بھی سامنے انے نہیں دیتا. آج کی ہی تازہ خبروں کو دیکھیں تو ہر محب وطن انسان دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح ایران پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے


شکر ہے کہ فوج نے اس مقدمہ کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے ورنہ ملک دشمن لوگ ایسے انڈین اور ایرانی ایجنٹس کو ملک سے فرار قرار دیتے ہیں


یہی وہ لوگ ہیں جو جنرل راحیل شریف کی دہشت گردوں کے خلاف بننے والی فوج کی سربراہی پر شور مچا رہے ہیں

پاکستانیوں کا فکری جمود‎

فی زمانہ پاکستانیوں کی فکری جمود کی ایک وجہ جو سمجھ آتی ھے وہ یہ ھے کہ نقل پر مکمل زور ھے اور عقل کو فہم دین کے ماخذات سے بالکل ہی خارج کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی صدیوں میں جب یونانی کتب کے تراجم شروع ہوئے تو معتزلہ ظہور پزیر ہوئے جنہوں نے ہر چیز کو ہی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا چناچہ معجزاتِ انبیاءِ سابقہ بھی بچوں کا کھیل محسوس ہونے لگے مَثلآ عصاۓ حضرت موسیٰ یا بنی اسرائیل کے لیے سمندر کا پھٹنا یا وادی نمل کے قصہ کی معتزلی تفسیر. اس کے ردِعمل میں سوادِاعظم (mainstream) نقل میں غلو کرنے لگا اور جو آیات قرانی اپنے مفہوم میں بلکل واضح بھی تھیں ان کو بھی مابعد طبعی رنگ میں دیکھنے لگے جیسے سوره بقرہ میں حضرت ابراہیم اور چار پرندوں کا قصہ  یا سوره قمر کی پہلی آیت.

دیگر روایات کو قبول کرنے کے لیے بھی تمام پیمانے، جو بالخصوص حنفی فقہاء نے مرتب کیے تھے، بالائے طاق رکھ دیے گئے، نتیجتاً وہ روایتیں جو ابتدائی احناف نے مسترد کر دی تھیں ہمارے حنفی فقہ کی اصل الاصول بن گئیں۔ مثلاً جادو والی  روایت جو ھشام بن عروہ کے دورِاختلاط (Mental Degenration)  میں عراقیوں نے ان کے کان میں پھونکی اور ھشام اس روایت کے لئے بن گئے. امام ابوحنیفہ، امام ابوبکر جصاص، دونوں نے اس روایت کو مسترد کردیا، نہ صرف اس لیے کہ یہ ھشام کے دورِاختلاط کی تھی اور امام ابو حنیفہ جو کہ ہشام کے تلامذہ میں شامل تھے اور اس دور کے عینی شاھد بھی تھے، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ روایت قرآن کی دو سورتوں  (1) بنی اسرائیل اور (2) فرقان سے ٹکرارہی تھی۔ آج امام ابو حنیفہ کا کوئی نام لیوا اس روایت پر سوال اٹھاتا ھے تو اسے معتزلی ھونے کا طعنہ سننا پڑتا ھے.

دوسری روایت حضرت عائشہ کی ٦ سال کی عمر کی ہے. یہ روایت امام زہری (شیعی) کے زرخیز ذہن کی پیداوار ہے. جو ایک اور شیعہ ابو معاویہ ضریر(رافضی) نے ہشام کو اسی  دور اختلاط میں ان کے والد کے حوالے سے سنائی اور ہشام بیچارے اس پر یقین کر کے اس کو اپنے باپ کے حوالے سے روایت کرنے لگے. ہشام سے اس کو روایت کرنے والوں کی اکثریت کوفہ، بصرہ ہی کی ہے. امام زہری حضرت عائشہ کو مضحکہ خیز حد تک کم عمر اس لئے دکھانا چاہتے تھے کہ یہ ثابت کر سکیں کہ حضرت عائشہ نے اپنی زندگی کا سنجیدہ دور نبی کریم کی زیر تربیت نہیں گزارا. اور جنگ جمل میں ان کا کردار اس بات کا غماض ہے.  واضح رہے امام زہری رئیس المدلسین سمجھے جاتے ہیں اور ان کے والد مسلم بن شہاب، شیعہ کمانڈر مختار ثقفی (جس نے مہدودیت اور پھر نبوت کا دعویٰ بھی کیا تھا) کی باغی فوج میں شامل ہو کر اسلامی حکومت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے تھے. ابتدائی احناف، جو اس پرآشوب دور کے چشم دید گواہ بھی تھے، کے برعکس تیسری صدی کے احناف نے اس روایت کو بھی بڑی خوش دلی سے قبول کر لیا کیونکہ عباسیوں کا دور شروع ہو چکا تھا.

عباسی خلیفہ مامون رشید، جس کی والدہ خراسانی تھیں، نے اپنے دور میں شیعہ اور معتزلیوں کا رشتہِ مفاد قائم کیا. شیعہ جو کہ اب تک روایت سازی کے دھندے کے ساتھ  ہی وابستہ تھے، نے اب اپنے دین کی اساس عقل پر بھی رکھنا شروع کر دی. یعنی وہ لوگ جو اب تک واضح طور پر مشبہ (Anthropomorphic) تھے، معتزلی فکر کو بھی اپنے مخصوص دین کی بنیاد بنانے لگے. چوتھی اور پانچوی صدی میں جب بنو بویہ کی رافضی سرکار تشکیل پائی تو انھوں نے تقیہ کا لبادہ اتارنا شروع کیا اور یعقوب کلینی نے  اصول کافی لکھ کر سواد اعظم سے علیحدگی کی باضابطہ بنیاد رکھ دی. جعفری فقہ ابھی دورِطفولیت میں ہی تھا.شیعوں نے مشبہ کلامی مذہب کو چھوڑ کر معتزلی کلامی مذہب کو قبول کر لیا اور مشبہ مذہب اہل حدیثوں کو تفویض کر دیا.

شیعہ سنی کی باضابطہ طلاق سے پہلے کا بیشتر پروپیگنڈا لٹریچر سنیوں کو دان کر دیا گیا. اور خود اپنے نئے مذہب کی بنیاد معتزلی اصولوں پر رکھی. نتیجتاً معتزلیوں اور رافضیوں کی مفاد پر مبنی اس رشتہ نے رشتہِ ضرورت کی صورت اختیار کر لی.

سواد اعظم جو معتزلیوں سے پہلے ہی الرجک تھا، اس رشتہ کی وجہ سے مزید متنفر ہو گیا. اور اس چیز نے اس کو عقل سے مزید دور اور نقل میں مزید پیوست کر دیا. آج امت کی اگر اصلاح کرنی ہے تو ہمیں مرض کی حقیقت کو پہلے خود سمجھنا ہو گا اور پھر سمجھانا ہو گا. کیونکہ امتِ وسطیٰ ہونے کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے. ابتدائی صدیوں کے شیعوں سے غیر ضروری چشم پوشی نے، ان کی دیومالاؤں کو ہمارے دین کی بنیاد بنا دیا ہے اور اسلام کے خلاف ان کا زہریلا پروپیگنڈا آج حدیث اور تاریخ کے خوشنما عنوانات کے ساتھ ہمارے گلوں سے اتارا جا چکا ہے، قرآن جو حقیقی فرقان تھا اور واقعات کو پرکھنے کی کسوٹی تھی، اس کو بالاۓ طاق رکھ دیا گیا ہے.

زمانہ حال کا اردو دان طبقہ فکری طور پر بلکل بانجھ ہو چکا ہے. اور جب زہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب نہیں ملتے تو شدت پسندی پر اتر اتا ہے. تھوڑا عرصہ پہلے تک جو بیماری دیوبندیوں اور اہل حدیثوں تک محدود تھی اب ممتاز قادری کے بعد بریلویوں میں بھی عود کر آئی ہے. آج سنیوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے کئی بچے، جب اپنی ذہنی الجھنوں کے تسلی بخش جوابات نہیں پاتے تو ان میں سے کوئی صحابہ کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کر کے شیعوں کے ظاہری ایجنڈا کو تقویت پہنچاتا ہے، اور کچھ تو نبی پاکﷺ پر ہی سوال اٹھا کر ملحد بن جاتے ہیں جو کہ شیعوں کا حقیقی ایجنڈا ہے. دور جانے کی کیا ضرورت ہے کہ بھینسا اور موچی اور اس قماش کے دوسرے بلاگرز کے ڈانڈے وہیں جا کر ملتے ہیں. اور انکے لئے شدت سے آواز اٹھانے والے نمایاں چہرے بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں. پاکستان کے مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش دیکھنے لئے Let Us Build Pakistan نامی ویب سائٹ ملاحظہ کی جا سکتی ہے.

اس فکری جمود کو توڑنے کا ایک حل یہ ہے کہ ایک بار ابتدائی صدیوں میں ہونے والے واقعات کی حقیقت کو سمجھا جائے. کس طرح واقعات نے ایک دوسرے کو جنم دیا. معتزلیوں کی عقل پرستی میں غلو، ماموں الرشید کے بعد ان کے اور شیعوں کی بڑھنے والی قربت اور بنو بویہ کی حکومت میں ہونے والی خاموش مفاہمت نے مسلمانوں کو کس طرح سے ایک گھن چکر کا شکار کر دیا ہے.

اس تمام تفصیلی بحث کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس سلسلے میں اب سنجیدہ نوعیت کی کوشش کی جائے، بہت سا معتزلی لٹریچر جو کہ ان پر شیعیت کا رنگ چڑھنے سے پہلے کا ہے، ہماری ادراک میں نئی جہت پیدا کر سکتا ہے. اس سے مراد یہ نہیں کہ معتزلی اپنے نظریہ میں صحیح تھے، اکثر و بیشتر وہ صحیح نہیں تھے، مگر ان کی تحریریں پڑھ کر ہماری نئی نسل عقل کو بھی دین کے ماخذات میں سمجھنے پر غور کرنا شروع کر سکتی ہے.

الطاف حسین نے پاکستان کے دشمنوں کو بے نقاب کر دیا

پچھلے دنوں الطاف حسین نے ایک ایسی تقریر کی جس نے تمام محب وطن پاکستانیوں کو دلی تکلیف پہنچائی. اس تقریر کے بعد ایم کیو ایم کو الطاف حسین سے لا تلقی کا اعلان بھی کرنا پڑا اور ملک کی تمام جماعتوں اور مکتبہ فکر کے لوگوں نے اس تقریر کی پر زور الفاظ میں مذمت بھی کی.

لیکن اس تقریر کا ایک خوبصورت پہلو یہ نکلتا ہے کہ اس تقریر میں الطاف حسین نے اپنی روانی میں پاکستان کے تمام دشمنوں کو بے نقاب کر دیا. وہ اس طرح کہ جب انھوں نے پاکستان کو توڑنے کی بات کی تو ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتا دیا کہ کن کن ممالک سے اس سلسلے میں مدد مانگی جائے گی.

ان ٤ ممالک میں سے تین کے بارے میں تو سب پاکستانیوں کو پہلے سے ہی معلوم ہے. انڈیا اور خاص طور پر مودی کا انڈیا تو پاکستان کو ہر ممکن تکلیف پہنچانے میں ہر پوری طاقت سے مصروف ہے. اس سلسلے میں مودی نے ابھی آزادی کی تقریر میں بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کا اعتراف بھی کیا ہے.  اس کے بعد افغانستان ہے جو آج کل انڈیا اور امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے . اور اس کے بعد اسرائیل کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں.

لیکن جس چھوتھے ملک کا ذکر الطاف حسین نے کیا وہ بہت ہی سنسنی خیز ہے. وہ ہے ایران. اگرچہ پاکستان کے میڈیا میں ایران کا نام کبھی بھی کسی منفی پہلو میں نہیں لیا جاتا لیکن پچھلے ٦، ٧ ماہ میں پے در پے ایسے واقعات ہوۓ ہیں جن سے نظریں چرانا ناممکن ہے. بلکہ نظریں چرانا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے

پچھلے دنوں جو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو جو ملا وہ براستہ ایران آیا تھا. اس سلسلے میں نہ صرف بھارت کا ایران میں ایک سیٹ اپ ہے بلکہ ٹریننگ سینٹر اور پناہ گاہیں بھی ہیں. اور یہ کام ایران کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا. اس کے بعد پاکستان نے ایران سے باقاعدہ درخواست کی کلبھوشن یادو کے ساتھیوں کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں

اس کے علاوہ پچھلے کچھ عرصہ ایران مسلسل پاکستان میں نہ صرف حملے کر رہا ہے بلکہ پاکستان کی خودمختاری کو بھی بلائے طاق رکھ رہا ہے. اس سلسلے میں ہمارا میڈیا بھی بلکل خاموش ہے اور اگر آپ ٹویٹر پر کسی صحافی سے اس بارے میں پوچھیں گے تو وہ آپ کو بلاک کر دے گا. لیکن آنکھیں بند کرنے سے حالات بہتر نہیں ہو جائیں گے

ایران ہی تھا جس نے ہمارے اٹمی پروگرام کو روکنے کی کوشش کی اور ایران ہی آج کل پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک بنا کر پیش کرنے میں بھارت کے ساتھ ہم آہنگ ہے. اس سلسلے میں ایران امریکا کو بھی پاکستان کے خلاف پابندیاں لگانے کا کہ رہا ہے

اس کے علاوہ ایران نے حال ہی میں انڈیا کے ساتھ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف ایک اتحاد بھی بنانے کا عندیہ دیا ہے اور یہ مشترکہ دشمن پاکستان ہے. یہ ایک بہت بڑی خبر تھی لیکن کسی چینل نے اس کو اہمیت نہیں دی

حال ہی میں ایران میں کشمیریوں کے حق میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے ایک مظاہرے کو بھی ایران نے روک دیا. جب کہ اسی ایران میں کچھ عرصہ پہلے ایک مظاہرے میں ایک اور اسلامی ملک کا سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا. لیکن تب ایسا کچھ نہیں کیا گیا

اس سے پہلے اس سال کے آغاز میں عزیر بلوچ نے بھی کہا تھا کہ ایران پاکستان میں تخریبی کاروائیوں اور بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں ملوث ہے لیکن میڈیا میں اس خبر کو بھی غائب کر دیا گیا تھا

ایران نے پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی نہ صرف مالی معاونت کی ہے بلکہ ان کو نقل و حمل کے ذرائع بھی.

CmN-1ShWIAAqcwQ

اس سلسلے میں یہ بھی یاد رہے کہ طالبان لیڈر کی ہلاکت کے وقت وہ ایران سے ہی بلوچستان آ رہا تھا. جس وقت امریکی ڈرون نے اس کو نشانہ بنایا

آخر کب تک ہم اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟